خیبر پختونخوا(چیغہ نیوز) گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع سے3ہزار281 افراد لاپتہ ہوئے جبکہ پاکستان بھر سے مجموعی طورپر8 ہزار 732ا فرادجبری طور پرگمشدہ ہوئے
تفصیلات کے مطابق 30 جون 2022ء تک لاپتہ ہونے والوں میں سے234 افراد کی لاشیں ملی۔ دوسرے نمبر پر بلوچستان سے2 ہزار 818، تیسرے نمبر پرسندھ سے ایک ہزار715، چوتھے نمبر پر پنجاب سے ایک ہزار518، اسلام آباد سے331، آزاد جموں و کشمیر سے60 اور گلگت بلتستان سے 9 افراد لاپتہ ہوئے
جبری گمشدگی کی انکوائری سے متعلق قائم کمیشن (کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈیس اپئیرنس) کی رپورٹ کے مطابق لاپتہ ہونے والوں میں 3ہزار 448 افراد گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ 2ہزار 219افراد زیر تفتیش ہیں جبکہ لاپتہ ہونے والے962 افراد اس وقت سکیورٹی فورسز کے زیر انتظام حراستی مراکز(انٹرمنٹ سنٹرز) میں قید ہیں
صوبے کے مختلف جیلوں میں قید افراد کی تعداد 598 ہے جبکہ 6 ہزار 513 افراد کے مقدمات کوجبری گمشدگی کی انکوائری سے متعلق قائم کمیشن کی جانب سے نمٹایا جا چکا ہے
سال2008ء میں خیبرپختو نخوا اور بالخصوص قبائلی اضلاع سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا تین سال بعد 2011ء میں سینکڑوں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے مقدمات پیش کئے کہ ان کے رشتہ داروں کو بغیر کسی قانون کے حراست میں لیا گیا ہے ان تین سالوں میں حراست میں لئے گئے کسی فرد کو نہ تو کسی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اور نہ ہی انہیں اپنے رشتہ داروں کے زندہ یا فوت ہونے کی خبر دی جارہی ہے جس پر سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا کہ بغیر کسی قانون کے کیوں شہریوں کو لاپتہ کیا گیا ہے؟
سال2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے یادداشت پر دستخط کرکے ایکشن ان ایڈ آف سول پاؤر ریگولیشن کی منظوری دی مگر اس قانون کو اس سے قبل یعنی یکم فروری2008ء سے نافذ العمل بنایا گیا اوریوں 2008ء سے بغیر کسی قانون کے زبردستی لاپتہ ہونے والے شہریوں کو حراست میں لینے کیلئے قانونی راستہ فراہم کیا گیا ایکشن ان ایڈآف سول پاؤر ریگولیشن میں تمام اختیار سکیورٹی فورسز کو دی گئی ہندوستان 5اگست 2019ء کو اپنے پارلیمنٹ (لوک سبھا)سے آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370میں ترامیم کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کر نے کی منظوری لے رہی تھی عین اسی دن یعنی 5 اگست 2019ء کواس وقت کے گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے انسانی حقوق کے خلاف بنائے گئے آرڈیننس (ایکشن ان ایڈ آف سول پاؤر ریگولیشن)کے دائرہ کو قبائلی اضلاع سے بڑھا کر پورے خیبر پختونخوا تک توسیع دی
ایکشن ان ایڈ آف سول پاؤرکے تحت سکیورٹی بغیر کسی جواز کے کسی بھی شہری کو حراست اور تحویل میں لے سکتا ہے دوسری جانب فوجداری قانون کے مطابق کسی فرد کو حراست میں لینے کے بعد انہیں 24 گھنٹوں کے اندر اندر عدالت میں پیش کرنے کا پابند ہے مگر ایکشن ان ایڈ آف سول پاؤر ریگولیشن کے مطابق عدالت کو پیش کئے بغیر کسی فرد کو نامعلوم مدت تک تحویل میں رکھنے کا اختیار حاصل ہے جبکہ 14دنوں میں کسی ملزم کا عدالت میں مقدمہ شروع ہوتا ہے مگر ایکشن ان ایڈ آف سول پاؤر ریگولیشن کے تحت گرفتار یا حراست میں لئے گئے فرد کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا
قبائلی اضلاع کا خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد ایڈوکیٹ شبیر حسین گگیانی ایکشن ان ایڈ آف سول پاؤر ریگولیشن کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا اس وقت پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں قائم بنچ نے 18اکتوبر 2019ء کو مذکورہ قانون کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دینے کے احکامات جاری کئے تھے۔ پشاور ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلہ پر حکم امتناعی جاری کیاقبائلی اضلاع میں اب بھی ایکشن ان ایڈ آف سول پاؤر ریگولیشن قانونی طور پر نافذ العمل ہے۔پشاور ہائیکورٹ کے وکیل شبیر حسین گگیانی کے مطابق ایکشن ان ایڈ سول پاؤر ریگولیشن نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی سطح پرانسانی حقوق کی خلاف ورزی اور آئینی حقوق کی پامالی کا قانون ہے
0 coment rios: