اسلام آباد (چیغہ نیوز )سپریم کورٹ میں ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس کی سماعت کے دوران چوہدری پرویز الہیٰ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کا جائزہ لے کر قانون میں تبدیلی کا حکم دے سکتی ہے ،سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں ترمیم بھی کر سکتی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جج کے بار بار اپنی رائے تبدیل کرنے سے اچھی مثال نہیں ہوتی ، جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے ،میں اپنی رائے تب ہی بدلوں گا جب ٹھوس وجوہات دی جائیں گی ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل نے کیس کی سماعت کے دوران پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ آئین کیا کہتاہے کہ کس کی ہدایت پر ووٹ دیا جائے ، آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایت پارلیمانی پارٹی دی ہے ؟ کیا پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ الگ ہیں ؟ علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتاہے ،چیف جسٹس نے علی ظفر سے سوال کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کہ کس کی ہدایت پر ووٹ دیاجائے ، آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمانی پارٹی دیتی ہے ،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کرواتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی اپنے طور پر توکوئی فیصلہ نہیں کرتی ،جماعت کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کو بتایا جاتاہے ، جس کی روشنی میں وہ فیصلہ کرتی ہے ، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی کیا تعریف ہے ؟کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہو تاہے ،وکیل علی ظفر نے کہا کہ پرویز مشرف دور میں پارٹی سربراہ کی جگہ پارلیمانی سربراہ کا قانون آیا تھا ،18 ویں ترمیم میں پرویز مشرف کے قانون کو ختم کیا گیا ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہوا ، علی ظفر نے کہا کہ 2002میں سیاسی جماعتوں کے قانون میں پارلیمانی پارٹی کاذکرہوا،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹری پارٹی کی جگہ پارلیمانی لیڈرکالفظ محض حقائق پر غلطی تھی،18 ویں اور 21 ویں ترامیم کے کیسز میں آرٹیکل 63 کی صرف شقوں کو دیکھا گیا ،آرٹیکل 63 اے سے متعلق پارٹی لیڈر کا معاملہ ماضی میں تفصیل سے نہیں دیکھا گیا ۔
چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کا جائزہ لے کر قانون میں تبدیلی کا حکم دے سکتی ہے ، سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں ترمیم بھی کر سکتی ہے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جج کے بار بار اپنی رائے تبدیل کرنے سے اچھی مثال قائم نہیں ہوتی ، جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے ،میں اپنی رائے تب ہی بدلوں گا جب ٹھوس وجوہات دی جائیں گی ۔وکیل علی ظفر کے درخواست پر دلائل مکمل ہو گئے ہیں ۔
0 coment rios: